Ticker

6/recent/ticker-posts

ہمارے تلخ رویے

میں بڑے سکون سے گاڑی میں بیٹھی تھی اور گاڑی بھی جیسے صاف ستھری سڑک پہ تیرتی جارہی تھی، جب اچانک ایک جھٹکا لگا، اور پھر جھٹکوں کاسلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔ ڈرائیور بولا : عارضی سپیڈ بریکر بنائے ہیں آگے سڑک پر مرمت کا کام ہو رہا ہے۔ میں نے خود بھی باہر دیکھ لیا تھا۔ "آگے کام ہو رہا ہے" کے بورڈ سڑک کنارے آویزاں تھے۔ گاڑی آہستہ رفتار میں بھی جھٹکے کھاتی آگے بڑھ رہی تھی اور میرے اندر ایک شدید کوفت جنم لے رہی تھی۔ دماغ میں ان جھٹکوں کی وجہ سے کئی تلخ سوال گڈ مڈ ہونے لگے۔ ایسی خرابیاں ہمارے حصے میں ہی کیوں آتی ہیں، ذمہ دار کون ہے، حکومت، سماج یا عوام؟ ان کے جواب سوالوں سے زیادہ الجھے ہوئے اور لاحاصل تھے۔

تھوڑی دیر بعد سڑک کے ٹھیک ہوجانے کی وجہ سے جھٹکے رک گئے۔ میں نے ایک سکون کا سانس لیا اور تبھی میری نظر سڑک کنارے لگے ایک اور بورڈ پر پڑی جس پر لکھا تھا۔۔۔ "تکلیف کے لئے معذرت خواہ ہیں" یہ ایک جملہ جیسے ہی نظروں سے ٹکرایا اور دماغ نے اسے قبول کیا تو میری ساری کوفت اور سارے منفی خیالات اس طرح صاف ہوتے چلے گئے جیسے شیشے پر پڑی گرد پانی سے صاف ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد مجھے اپنے اور اپنے جیسوں کے رویوں سے متعلق ایک نئی بات معلوم ہوئی۔ ہم بھیڑ میں پیدل چلتے ہیں اور کسی وجہ سے ٹھوکر کھا کر سامنے والے سے ٹکرا جاتے ہیں، سامنے والا مڑ کے دیکھتا ہے اور تلخی سے پوچھتا ہے، "دیکھ کر نہیں چل سکتے کیا؟" 

ہم میں سے اکثر "معذرت" کا لفظ بولنے کی بجائے یہ کہہ دیتے ہیں کہ ۔۔"کیا ہو گیا ، گاڑی تو نہیں مار دی ہے ؟" جس پر سامنے والا اور غصے میں آجاتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری غلطی نہیں تھی۔ ہم جان بوجھ کر نہیں ٹکرائے۔ اس لئے ہمارا معذرت کہنا نہیں بنتا ، ہم تلخی کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ معذرت کا استعمال اس وقت ترک ہوا جب ہم نے دوسروں کی اور دوسروں نے ہماری معذرت قبول کرنے سے انکار کیا۔ جیسا کہ اسی ٹکرانے والی مثال کو دیکھیں تو اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ "سوری" کہیں تو آگے سے جواب ملتا ہے "بڑا آیا انگریز۔۔ سوری بولتا اے" ایسے میں سوری بولنے والا سوچتا ہے، اس سماج میں معذرت کرنا بنتا ہی نہیں ،سو اگلی بار سوری کرنے سے پہلے وہ سوچے گا۔ اور اس سے اگلی بار۔۔ وہ سوری لفظ کا استعمال ترک کر دے گا۔

تو ایسا لگتا ہے کہ ہمارے رویوں میں تلخی کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ ہم نے معذرت خواہانہ انداز ترک کر دیا ہے اور یہ ترک اس لئے ہوا ہے کہ ہم نے دوسروں کی معذرت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس لئے اب دوسرے بھی ہماری معذرت قبول نہیں کرتے۔ سو اگر آپ چاہتے ہیں کہ دوسرے آپ کی "معذرت" قبول کریں تو آپ پہلے وہ رویہ اپنائیے جو دوسروں کی معذرت کو قبول کرتا ہو۔ اخلاق کو خوبصورت بنانے والے کئی الفاظ کئی جملے ایسے ہیں جن کا استعمال ہم نے ترک کر دیا ہے جیسا کہ ایک لفظ ہے "شکریہ"، ہم نے اس کا استعمال ترک کر دیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک "باتکلف لفظ" ہے۔ بے تکلف رشتوں میں یہ بولنا جائز نہیں۔ کوئی دوست۔ شکریہ کہے تو کہا جاتا ہے’’ شکریہ مت کہو‘‘،’’ چھوڑو یار‘‘،’’دوستی میں سب چلتا ہے‘‘، ’’شکریہ کہہ کر آپ نے مجھے اجنبی قرار دے دیا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ شکریہ ایک ایسا لفظ ہے جس کے اندر اتنی مثبت انرجی بھری ہے جسے میں مکمل طور پر بیان نہیں کر سکتی۔ یہ ایک لفظ دو انسانوں کے درمیان اتنا مثبت تعلق پیدا کر دیتا ہے کہ اسکی سرشاری روح تک پہنچتی ہے۔

بشرطیکہ خلوص نیت سے ادا کیا ہو ناکہ طنزیہ لہجے میں۔ کسی بھی انسان کی سب سے بڑی خوبصورتی اس کا اخلاق ہوتا ہے جیسے ہم ظاہری خوبصورتی کی پروا کرتے ہیں، خود کو صاف ستھرا رکھنا،منہ ہاتھ دھونا، میک اپ کرنا تاکہ دیکھنے والوں کو خوبصورت نظر آئیں۔ ایسے ہی ہمیں بہت ضرورت ہوتی ہے کہ اپنے اخلاق کو بھی وقتاً فوقتاً سنوارتے رہیں، اسے صاف ستھرا رکھیں ، یہ اتنا مشکل کام نہیں ہے۔ زندگی کی اس سڑک پر پرائیوٹ راستہ ہے جسکا نام اخلاق ہے، وہاں چند بورڈ آویزاں کیجئے جن پر مہربانی، کوئی بات نہیں، معذرت ، خوش آمدید، آپ سے مل کر اچھا لگا، خدا آپ کا حامی و ناصر ہو، خوش رہئے، آپ پر سلامتی ہو، شکریہ ،جیسے الفاظ لکھ دیجئے۔ تجربہ کر کے دیکھ لیجئے، آپ کے اندر کی تلخی کم ہو جائے گی۔

ممتاز شیریں


 

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments