Ticker

6/recent/ticker-posts
Visit Dar-us-Salam.com Islamic Bookstore Dar-us-Salam sells very Authentic high quality Islamic books, CDs, DVDs, digital Qurans, software, children books & toys, gifts, Islamic clothing and many other products.Visit their website at: https://dusp.org/

ڈپریشن دوسری بیماریوں کی طرح قابل علاج ہے

دماغی صحت کے بغیر ایک مکمل صحت مند زندگی کا تصور ممکن نہیں۔ انسانی جسم میں دماغ کی حیثیت ایک ’’ کنٹرول روم ‘‘ کی ہوتی ہے ۔ اگر کنٹرول روم یعنی دماغ کی کارکردگی درست نہیں تو انسانی زندگی کا تمام تر نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ دماغ ہی انسان کے جسم کا وہ حصہ ہے جو سارے جسمانی نظام کو کنٹرول کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دماغی اور نفسیاتی بیماریاں اکثر اوقات جسمانی امراض کی شکل میں ظاہر ہوتی ہیں ۔ دماغی بیماریاں کیا ہیں ؟ کیوں ہوتی ہیں ؟ ان سے بچائو کیسے ممکن ہے ؟ در حقیقت کوئی شخص بھی ذہنی بیماری سے قطعی طور پر محفوظ نہیں ہے ایک اندازے کے مطابق دنیا میں ہر چار میں سے ایک شخص کسی نہ کسی ذہنی بیماری میں مبتلا ہے ۔

دماغی صحت کے عالمی دن کے حوالے سے آج تمام اہل فکر کو یہ دعوت ہے کہ ہم یہ سوچیں کہ ہمارے ملک میں آج صورتحال کیا ہے ؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ کیا واقعی دماغی امراض بڑھ رہے ہیں ۔ دوسرا سوال یہ کہ کیا علاج معالجے کی سہولیات بر وقت اور مناسب مہیا کی جا رہی ہیں ۔ تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا اس کے تدارک کیلئے لوگوں کو وسیع معلومات ہیں اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اگر دماغی امراض بڑھ رہے ہیں تو کیوں ؟ ذہنی امراض دل کی بیماریوں سے زیادہ پیچیدہ اور کینسر سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں ۔ یہ ہر جگہ اور ہر عمر کے لوگوں میں ہوتے ہیں ۔ دنیا میں ہر جگہ چار میں سے ایک شخص اس میں مبتلا ہوتا ہے چاہے وہ غریب ہو یا امیر ، جوان ہو یا بوڑھا ۔ ہر معاشرے اور نسل کے لوگ اس کی زد میں ہیں ۔ 

یہ بیماریاں بعض خاندانوں کا نسل در نسل بد قسمتی بن کر تعاقب کرتی ہیں کچھ لوگوں کو تب دبوچ لیتی ہیں جب وہ کامیابیوں کے زینے پر ہوتے ہیں اور کچھ کو یہ کامیابیوں کے زینے تک پہنچنے نہیں دیتیں ۔ انہیں کبھی خوشگوار زندگی گزارنے نہیں دیتیں ۔ ان سے چھوٹی چھوٹی خوشیاں جیسے فلم دیکھنا یا باغیچے کی سیر کرنا ، بچوں سے پیار کرنا تک چھین لیتی ہیں۔ یہ انسان سے اس کی انسانی معراج چھین لیتی ہیں اور ان میں مبتلا شخص بعض اوقات زندہ رہنے سے مرنے کو ترجیح دینے لگتے ہیں ۔ مختلف ممالک میں ان بیماریوں کی شرح مختلف ہے کیونکہ ماحول ان بیماریوں پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے وطن عزیز پاکستان میں ہر شخص بوڑھا ، جوان ، بچہ چاہے وہ خوشحال ہو یا قسمت نے اسے خوشحالی سے وقتی طور پر دور کر دیا ہو ۔

عجیب سی بے چینی محسوس کرتا ہے ایک بے یقینی کا شکار ہے اور خود کو غیر محفوظ سمجھتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جہاں بے یقینی اور بے چینی کا ماحول ہو وہاں پر اداسی جنم لیتی ہے اور یہ اداسی اور عدم تحفظ کا احساس انسان کو ثابت قدمی کے ساتھ مستقبل کی طرف جدوجہد کرنے سے دور لے جاتا ہے ۔ یہ سب کیوں ہے ؟ اور اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ آپ جس سے بات کریں جواب ایک ہی ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ملک میں عدم استحکام کی فضاء اور امن و امان کی صورتحال کی وجہ سے شہریوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے اور ذہنی اور نفسیاتی امراض میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ یہ بات واضح رہے کہ معاشی مشکلات کو اداسی اور بے یقینی کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا ۔

یہ صورتحال ہمیشہ سے رہی ہے جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو معاشی مشکلات اس سے بھی زیادہ تھیں لیکن اداسی اور بے یقینی نہیں تھی ۔ لاکھوں لوگ ایسے بھی تھے جو سر چھپانے کی جگہ ڈھونڈتے ، تحفظ کی تلاش میں آئے تھے۔ اس ملک کا ہر شہری اپنے دل میں یہ جذبہ محسوس کرتا ہے کہ اس کا ملک بھی پسماندگی کی بجائے ترقی یافتہ کہلائے ۔ ہمارے ہر شہری میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ اس ملک کا پرچم بلند رکھے۔ لیکن جب لوگ ذمہ دار افراد کی غیر ذمہ داریوں کے مظاہرے سر عام دیکھتے ہیں تو ہر دل اور ذہن میں وسوسے جنم لینے لگتے ہیں ۔ ان کے یقین اور بھروسے کو ٹھیس لگتی ہے جس کے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں ۔ 

ماہرین نفسیات و ذہنی امراض سے بات کی جائے تو وہ کہتے ہیں کہ کسی بھی ملک کا سیاسی پس منظر لوگوں کے ذہنوں کو بری طرح متاثر کرتا ہے اور ایک مایوسی کی فضاء پیدا کرتا ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ اس کا تدارک ممکن نہ ہو ۔ موجودہ صدی نے جہاں انسان کو نئی نئی ایجادات ، سہولتیں اور آسائشیں دی ہیں وہاں طب کے شعبے میں بھی تشخیص سے لے کر علاج تک بہت سے مرحلے طے ہوتے نظر آتے ہیں ۔ آج بہت جان لیوا اور وباء کی صورت میں پھوٹنے والے امراض کا علاج ممکن ہے اسی طرح ذہنی صحت کے شعبے میں بھی علاج کی صورت میں نمایاں ترقی ہوئی ہے لیکن افسوس کا مقام ہے یہ ہے کہ ہمارے ملک میں عوام دماغی بیماریوں کے بارے میں بہت سے وسوسوں کے شکار ہیں اور کم علمی اور نا واقفیت کی وجہ سے نفسیاتی اور ذہنی بیماریوں کو پاگل پن کا نام دے دیا جاتا ہے ۔ 

اگر کوئی سائیکاٹرسٹ کے پاس جاتا ہے تو اسے معاشرے میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا حالانکہ بیشتر ذہنی بیماریاں قابل علاج ہیں ۔ ذہنی بیماریوں میں ڈپریشن سر فہرست ہے ۔ اس میں انسان کے اندر مایوسی حد سے بڑھ جاتی ہے اور زندگی سے خوشی کا عنصر غائب ہو جاتا ہے ۔ بھوک نہیں لگتی ، نیند نہیں آتی ، کام کاج میں دل نہیں لگتا ، زندگی کے معمولات میں دلچسپی ختم ہو جاتی ہے۔ قوت ارادی کم اور قوت فیصلہ ختم ہو جاتی ہے ۔ انسان کی تخلیق کرنے والی صلاحیتیں متاثر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔

جب تک ہم میں قناعت پسندی نہیں آئے گی ڈپریشن اور فرسٹریشن بڑھتا جائے گا ۔ سب سے پہلا حل تو یہ ہے کہ انسان خدا کی طرف رجوع کر کے نماز باقاعدگی سے پڑھے ، قرآن پاک کی تلاوت کرے تو آپکو یقیناً محسوس ہو گا کہ طبیعت میں قرار اور سکون آ رہا ہے ۔ ڈپریشن کا علاج بروقت کرایا جائے ورنہ انسان انتہائی مایوسی کے باعث خود کشی تک کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔ ڈپریشن دوسری بیماریوں کی طرح قابل علاج بیماری ہے اور صحت یاب ہو کر ایسے مریضوں کیلئے بھی ایک فعال اور کامیاب زندگی گزارنا ممکن ہے ۔

پروفیسر اعجاز احمد ترین


 

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments