Ticker

6/recent/ticker-posts
Visit Dar-us-Salam.com Islamic Bookstore Dar-us-Salam sells very Authentic high quality Islamic books, CDs, DVDs, digital Qurans, software, children books & toys, gifts, Islamic clothing and many other products.Visit their website at: https://dusp.org/

ہمارے خیالات ہی ہمیں بناتے اور بگاڑتے ہیں

آج اسلامی جمہوریہ پاکستان کی کل آبادی 22 کروڑ میں سے صرف چند ہزار کو چھوڑ کر باقی سب کے سب ذہنی و نفسیا تی مریض ، بیمار ، پریشان ، مایوس ، خوفزدہ ، بزدل ، ڈرپوک ، بے بس، قیدی اور بے حس ہو چکے ہیں۔ ابھی کچھ ہی عرصے پہلے تک یہ سب صحت مند اور خوش باش انسان ہوا کرتے تھے یہ سب خوشحالی ، کامیابی ، ترقی ، آزادی کے خواب دیکھا کرتے تھے، سب اپنے روشن مستقبل کے لیے اتنے ہی پر امید تھے جتنے صحت مند انسان ہوا کرتے ہیں پھر اچانک ایسا کیا ہوا کہ یہ سب ایسے انسان کیوں بن گئے۔ ان سب سے خوشیاں کیوں دور چلی گئیں‘ مایوسی نے ان کے عزم صمیم کو کیوں کمزور کر دیا‘ وہ زندگی کی بھاگ دوڑ میں کیوں پیچھے رہ گئے۔ حالات انھیں آگے بڑھنے کیوں نہیں دے رہے۔ آئیں ! اس کیوں کا جواب ڈھونڈتے ہیں۔ دنیا کا عظیم ماہر نفسیا ت اور ادیب ڈیل کار نیگی لکھتا ہے ’’ چند سال ہوئے مجھ سے ایک ریڈیو پروگرام میں ایک سوال پوچھا گیا ’’ اپنی زندگی میں آپ نے سب سے بڑا سبق کیا سیکھا ہے ؟‘‘ 

میرے لیے اس کا جواب دینا آسان ہے، میں نے اپنی زندگی میں اہم ترین سبق یہ سیکھا ہے کہ ہمارے خیالات و تصورات ہماری شخصیت کے آئینہ دار ہیں اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ آپ اس وقت کیا سوچ رہے ہیں تو میں فوراً بتا دوں گا کہ آپ کیسے آدمی ہیں جو کچھ ہم ہیں ہمارے خیالات ہی ہمیں ایسا بناتے ہیں ہمارا ذہنی رحجان ہی ہماری قسمت کا تعین کرتا ہے ۔‘‘ امریکی فلاسفر ایمرسن کے الفاظ میں ’’ ایک انسان وہ ہی کچھ ہے جو وہ تمام دن سوچتا ہے ‘‘ اور اس سے مختلف وہ ہو بھی کیا سکتا ہے ؟ انسان کے سامنے سب سے بڑا اہم واحد مسئلہ صحیح قسم کے خیالات کا انتخاب ہوتا ہے اگر وہ اس میں کامیا ب ہو جاتا ہے تو وہ اپنے سارے مسائل کو نہایت آسانی اور خوبی سے نمٹ سکتا ہے۔ عظیم فلسفی مارکس ادری لی نے اسے آٹھ الفاظ میں سمو دیا ہے ’’ ہماری زندگی ہمارے خیالات سے بنتی ہے ‘‘ اگر ہم خوشی اور مسرت کے خیالات سوچیں گے تو ہم خوش اور مسرور رہیں گے اگر ہمارے خیالات افسرد ہ اور پژمردہ ہیں تو ہم پر بھی افسردگی اور پژمردگی محیط ہو جائے گی بزدلانہ خیالات ہمیں بزدل اور ڈرپوک بنا دیں گے اور بیمار خیالات ہمیں بیمار بنا دیں گے اگر ہم نا کامی کے متعلق سوچیں گے تو ہم یقینا ناکام رہیں گے۔

اگر ہم اپنے آپ پر ترس کھاتے رہیں گے تو ہر کوئی ہم سے گریز کریگا ہم سے دور بھاگے گا نارمن ونسنٹ پیل کے الفاظ میں ’’ آپ وہ نہیں جو آپ سمجھتے ہیں بلکہ وہ ہیں جو آپ سوچتے ہیں۔‘‘ آئیں ! ہم مل کر 22 کروڑ پاکستانیوں میں سے ایک پاکستانی کی موجودہ زندگی کے متعلق جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے حالات زندگی کا جائزہ لیتے ہیں کہ وہ کن حالات میں اپنے شب و روز گذار رہا ہے۔ آج پاکستان کے 95 فیصد لوگ اپنے روزگار کے متعلق انتہائی پریشان اور خوفزدہ ہیں اور ساتھ ہی ساتھ بے یقینی سے بھی دو چار ہیں ملک میں بے روزگاروں کی پوری فوج بن چکی ہے جو معمولی سے روزگار کے لیے سارا سارا دن مارے پھرتے رہتے ہیں۔ زندگی کی روزمرہ کی ہر چیز ان کی جیب میں موجود پیسوں سے کہیں زیادہ مہنگی ہو چکی ہے۔ ایک وقت کا کھانا بھی پیٹ بھر کر نہیں کھا پا رہے ہیں وہ یا ان کے گھر میں سے کوئی بیمار ہو جائے تو قیامت صغر ی برپا ہو جاتی ہے ۔ 

اپنے بچوں اور پیاروں کی چھوٹی چھوٹی خواہشوں پر روز مرتے اور روز جیتے ہیں۔ اپنا اور اپنوں کا سامنا کرنے کی ہمت جواب دے چکی ہے۔ مراعات یافتہ طبقوں کے ہاتھوں روز کچلے اور روندے جاتے ہیں طاقتوروں اور بااختیاروں کے دیے گئے زخم اب ناسور بن چکے ہیں ۔ ان کی شرافت ، ایمانداری ، معصومیت ان کے لیے گالی بن چکی ہے۔ ذلت ، گالیاں اور خواری ان کا نصیب بن چکی ہیں ہزاروں سوالات ان کے اندر درد سے چیخ رہے ہیں۔ ان کے سارے خواب ان کے دل روز نوچتے رہتے ہیں۔ ان کی ساری خواہشیں ان کے سامنے ناچتی ہیں، ترقی، کامیابی، خوشحالی کی آرزویں ان کو دیمک کی طرح کھوکھلا کرتی جارہی ہیں۔ فاقوں اور ناقص خوراک نے انھیں ان گنت بیماریوں میں مبتلا کر دیا ہے ۔ امیروں کی گالیا ں ان کی عزت نفس کا روز قتل کر رہی ہیں۔ اپنے پیاروں کے سامنے روز رسوا اور ذلیل ہو رہے ہیں ۔ ہزروں اذیتیں روز ان کے گھر کے دروازے کے آگے بیٹھی منتظر رہتی ہیں، ان کی بے بسی انھیں نو چ نوچ کر کھا رہی ہے۔

شرمندگی، بزدلی کی وجہ سے وہ اپنے آپ سے نظریں نہیں ملا پارہے ہیں۔ اب آپ ہی بتائیں کہ ان حالات میں انسان ذہنی و نفسیاتی مریض ، بیمار ، پریشان ، مایوس، خوفزدہ ، بزدل، ڈرپوک ، بے بس ، قیدی اور بے حس نہیں ہو گا تو پھر کیا ہو گا۔ ان حالات میں تبدیلی آنے ہی سے ان کی زندگیوں میں خوشیاں لوٹ سکتی ہیں اور مایوسی کا دور ختم ہو کر انھیں پھر سے متحرک کر سکتا ہے۔ سارتر بتاتا ہے کہ اس کی والدہ خدا سے ایک ہی دعا مانگا کرتی تھی کہ خدا مجھے سکون دے ۔ آج سیکڑوں سال بعد فرانس سے لاکھوں میل دور پاکستان میں ایک نہیں بلکہ 22 کروڑ انسان دن رات یہ ہی دعا مانگ رہے ہیں کہ خدا ہمیں سکون دے۔ پوپ گریگوری اول نے 590ء میں سات خو فناک گناہوں کی فہرست جاری کی تھی ان کا کہنا تھا انسان کو سات گناہ ہوس، بیسار خوری، لالچ ، کاہلی ، شدید غصہ ، حسد اور تکبر ہلاک کر رہے ہیں انسان اگر ان سات گناہوں پر قابو پالے تو یہ شاندار، بھرپور اور مطمئن زندگی گزارتا ہے ۔

گاندھی نے پوپ گریگوری اول کے سات گناہوں کی فہرست سے متا ثر ہو کر 1925 میں سات سماجی گناہ کی فہرست جاری کی ان کا کہنا تھا جب تک کوئی معاشرہ ان سات گناہوں پر قابو نہیں پاتا وہ معاشرہ اس وقت تک معاشرہ نہیں بنتا۔ گاندھی کے بقول اصولوں کے بغیر سیاست گناہ ہے کام کے بغیر دولت گناہ ہے ضمیر کے بغیر خوشی گناہ ہے کردار کے بغیر علم گناہ ہے، اخلاقیا ت کے بغیر تجارت گناہ ہے، انسانیت کے بغیر سائنس گناہ ہے وہ جو چند ہزار انسان آج پاکستان اور 22 کروڑ پاکستانیوں کے خدا بنے ہوئے ہیں وہ ان ہی سات گناہوں کی لپیٹ میں ہیں اور ان کے ان سات گناہوں کی وجہ سے آج 22 کروڑ انسان برباد ، تباہ اور ذلیل و خوار ہورہے ہیں اور نجانے کب تک ہوتے رہیں گے۔

آفتاب احمد خانزادہ  

بشکریہ ایکسپریس نیوز

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments