Ticker

6/recent/ticker-posts

مطمئن رہنے کا فن سیکھنا پڑتا ہے

آج کے اس ڈیجیٹل دور میں میرا یا پھر ہم میں سے زیادہ تر لوگوں کا یہی حال ہے۔ ہمارے پاس بہت کچھ ہے، سواری کے ایسے نظام ہیں، جو پہلے لوگوں کے پاس نہیں تھے، کھانے میں وہ ٹیسٹ ہیں، جو پہلے نہیں تھے، سونے کے لیے وہ آرام دہ بیڈ ہیں، جن کا پہلے کسی نے خواب تک نہ دیکھا تھا، بیٹھنے کے لیے نرم و گداز صوفے ہیں، ٹھنڈے مشروبات اور کوکٹیلز ہیں، بہترین گھڑیاں ہیں، رابطے کے لیے ٹچ موبائل ہیں، ٹیلی وژن ہیں لیکن ہم مطمئن نہیں ہیں۔ اطمینان اور سکون ایک سیکھنے کی چیز ہے، اسے مادی اشیاء کے مسلسل حصول سے حاصل نہیں کیا جا سکتا، ایک کامیاب کاروبار سے حاصل نہیں کیا جا سکتا، ایک کامیاب ملازمت سے حاصل نہیں کیا جا سکتا، یہ آسائشیں خریدنے، شہرت پانے، زیادہ بوائے یا گرل فرینڈز رکھنے اور دولت ملنے سے حاصل نہیں ہوتیں۔ جس طرح انسان غصے کو کنٹرول کرنا سیکھتا ہے، میرے خیال سے بالکل اسی طرح مطمئن رہنا بھی سیکھنا پڑتا ہے۔ 

میرے اندر بھی بے چینی پیدا ہوتی ہے، نئی خواہشات سر اٹھاتی ہیں، نئے لوگ زندگی میں آتے ہیں لیکن میں خود اپنے آپ کو یہ بار بار سمجھاتا ہوں کہ مطمئن رہنا سیکھنا پڑتا ہے، مطمئن ہونا پڑتا ہے۔ کسی مشہور، خوشحال، دولت مند اور مہنگی کار میں جاتے شخص کو دیکھ کر انسان کا دل بھی بالکل ویسا ہی بننے کو کرتا ہے، جو فطری عمل ہے۔ میرا اپنا بھی یہی حال ہے لیکن یہ عادت تباہ کن ہے۔ کیوں ؟ کیوں کہ اس کے بعد یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے پاس کچھ کمی ہے یا میری صلاحیتیں اس سے کم ہیں، یا میری ذات میں کوئی کمی ہے۔ اور اگر آپ کو وہ سب کچھ مل بھی جائے، جس کو دیکھ کر آپ خواہش کر رہے تھے، تو بھی انسان غیر مطمئن ہی رہے گا۔ مزید دولت مند ہونے، مزید مشہور ہونے، مزید مکان بنانے، گاڑی کا نئے سے نیا ماڈل خریدنے، مہنگے سے مہنگا لباس پہننے کی طلب جاری رہتی ہے۔ 

یہ ایک ایسا سمندر ہے، جس میں آپ جتنا پانی پیتے ہیں، اتنی ہی پیاس بڑھتی جاتی ہے۔ ہم تمام زندگی بھی خواہشوں کے پیچھے بھاگیں تو یہ ختم ہونے والی نہیں ہیں اور ہم مطمئن ہونے والے نہیں ہیں۔ میری اس ساری گفتگو کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اچھی جاب یا اچھی ملازمت یا مزید خوشحالی کے لیے آپ کوششیں ترک کر دیں۔ کوشش کریں لیکن جو آپ کے پاس موجود ہے، اس سے لطف اندوز ہونا بھی تو سیکھیں، اس سے مطمئن ہو کر زندگی انجوائے کرنا تو شروع کریں۔ ترقی کی جستجو ہر وقت رہنی چاہیے، یہ زندگی کی علامت ہے بلکہ خواہشات ہی زندگی کو جاری رکھنے کا ایندھن ہیں لیکن کوشش کرنے کے بعد نتیجے سے مطمئن ہونے کا فن آنا چاہیے۔ میں نے ایک دن پراٹھے میں کچھ نقص نکالا، تو امی جی کہنے لگیں، شکر کرو گندم کا پراٹھا کھا رہے ہو ورنہ پہلے تو گندم مہنگی ہوتی تھی اور ہم باجرے یا جو کی روٹی کھایا کرتے تھے، ہم ترسا کرتے تھے کہ کبھی ہفتے کے سات دن گندم کی روٹی بھی کھائیں گے۔ آپ جب ماضی کو ذہن میں رکھتے ہیں تو مطمئن ہونا یا رہنا زیادہ آسان ہو جاتا ہے۔

میں نے سرگودھا میں پڑھائی کے دوران ایک مرتبہ کوئی تین مہینے بعد ٹھنڈا دودھ پیا، اس کا شریں ذائقہ آج تک میری روح محسوس کرتی ہے اور اب میں جب بھی دودھ پینے لگتا ہوں مجھے وہ واقعہ یاد آ جاتا ہے، اب کوئی تھوڑا سا بھی دودھ ضائع کرے تو میں فورا کہتا ہوں کیوں ضائع کر رہے ہو؟ وجہ یہ کہ احساس بیٹھ چکا ہے کہ یہ ایک ایسی چیز ہے، جو میرے پاس کبھی نہیں تھی۔ گاؤں میں ایک وقت تھا کہ امی جی کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ گھر میں کسی طرح بجلی آ جائے تو وہ راتوں رات ہی سارے کام نمٹا کر سویا کریں، باجی کی ایک وقت خواہش یہ تھی کہ ہمارے مٹی کے صحن میں بھی سرخ اینٹیں لگ جائیں تو انہیں دھونے کا کتنا مزہ آئے، بھائی کبھی کہتا تھا کہ صحن میں فرش ہو جائے تو گرمیوں میں اس پر پانی پھنک کر پھسیلنے میں کیا ہی مزہ ہو؟ 

ہم سب ایسے ہی ماضی سے نکلے ہوئے ہیں، ہم نہ سہی ہمارے آباؤ اجداد کا ماضی ایسا ہو گا، جہاں آسائشیں بہت کم تھیں، سہولتیں نہ ہونے کے برابر تھیں، اچھے ڈاکٹر نہیں تھے، ادویات نہیں تھیں، پیزے نہیں تھے، برگر نہیں تھے، سواریاں نہیں تھیں، پانی گرم تھا، لائٹ نہیں تھی، استریاں نہیں تھیں، ٹی وی نہیں تھے، اسمارٹ فون نہیں تھے۔ آج ہم سب کے پاس وہ بہت سی چیزیں موجود ہیں، جن کی ہم کبھی خواہش کرتے تھے۔ آپ ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ جو اب آپ کے ہاتھ میں بے معنی سا ایک موبائل ہے، کبھی آپ کی ایک بڑی خواہش رہا ہے، جو شخص ابھی آپ کے ساتھ تعلق میں ہے، کبھی آپ نے اس کی خواہش کی تھی۔ ہم سب کو بہت کچھ مل چکا ہے لیکن اس کے باوجود ہم مطمئن نہیں ہیں، ہمیں سکون نہیں ہے کیوں کہ ہم نے مطمئن ہونا سیکھا ہی نہیں ہے۔ ہمیں سکھایا نہیں گیا کہ جو کچھ تمہارے پاس نہیں ہے، اس کے بارے میں زیادہ فکرمند نہ رہو بلکہ اس کے بارے میں زیادہ خوش رہو، جو کچھ تمہارے پاس موجود ہے۔

میرے زیادہ تر پڑھے لکھے دوست آج بھی تقریبا ہر محفل میں دنیا کے بڑے بڑے فلسفیوں کی بات کرتے ہیں، عالمی سیاست کے اتار چڑھاو پر تجزیے کرتے ہیں، ارسطو، کانٹ، فرائیڈ، نطشے، روسو، کارل مارکس اور سارتر جیسی شخصیات کے حوالے دیتے نہیں تھکتے لیکن میرے جیسے عام شخص کو یہ نہیں بتا پاتے کہ تمہارے یہ مسائل ہیں اور تم نے ان سے نمٹنا کیسے ہے؟ میں آج بھی اس ساری علمی و عالمی سطح کی گفتگو میں خود کو تنہا کھڑا محسوس کرتا ہوں۔ میرے وہ مسائل ہی نہیں ہیں، جن کے بارے میں میرے تمام پڑھے لکھے دوست میرے ساتھ گفتگو کر رہے ہوتے ہیں۔ شاید ہمیں اپنی علمی محافل میں بڑے بڑے نظریات کے ساتھ ساتھ انسان کے چھوٹے چھوٹے مسائل پر بھی بات کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کو بتانے کی ضرورت ہے کہ مطمئن رہنا ایک فن ہے، جسے ہم سب کو سیکھنے کی ضرورت ہے، اس جیسے کئی دیگر ’’چھوٹے چھوٹے انسانی مسائل‘‘ پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔

امتیاز احمد

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو


Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments