آج کے اس جدید دور میں ہر مرد، عورت، بچے، بوڑھے اور جوان چاہے وہ امیر ہوں یا غریب، جاب کرنے والے افراد ہوں یا کاروباری حضرات، ملوں کے مالک ہوں یا بیوروکریٹ، مزدور ہوں یا کسان، سیاست دان ہوں یا حکمران، کسی نہ کسی ٹینشن یا تشویش میں مبتلا ہوتے ہیں۔ بعض لوگ چاہے کتنے ہی آئیڈل اور اچھے حالات میں زندگی گزار رہے ہوں، لوگ ان کی زندگی کو دیکھ کر متاثر ہوتے ہوں اور ان جیسی زندگی گزارنے کی تمنا بھی رکھتے ہوں، لیکن پھر بھی اگر کوئی اُن کے دل میں جھانکے تو وہ کسی نہ کسی قسم کی پریشانی میں مبتلا نظر آتے ہیں۔
اگر ان پریشانیوں کی تفصیل میں جایا جائے اور ایک انسان کے بچپن سے ابتدا کی جائے تو ایک بچے کو یہ پریشانی لاحق ہوتی ہے کہ ہوم ورک بہت زیادہ ملتا ہے اور کھیلنے کے لئے وقت نہیں ملتا یا پھر وہ بہت سے کھلونے لینا چاہتا ہے جو اس کے والد اسے دلاتے نہیں ہیں۔ پھر وہ بچہ جب جوان ہوتا ہے تو اسے اعلیٰ تعلیم اور اچھے کیرئیر کی ٹینشن لاحق ہو جاتی کیونکہ وہ اپنی مطلوبہ منز ل تک پہنچنا چاہتا ہے۔ جوانی میں بعض نوجوانوں کو ایک اور بڑی تشویش محبت کی صورت میں لاحق ہو جاتی ہے۔ اس میں کامیابی یا ناکامی کے بعد جب ایک نوجوان شادی کرتا ہے تو بہت سے گھریلو مسائل، یہاں تک کہ لڑائی جھگڑوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس قسم کے گھریلو مسائل سے بعض لڑکیاں شدید ذہنی دباؤ میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔ بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کرتے ہوئے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بچے جب جوان ہو جاتے ہیں تو بچوں کی اچھی جگہ شادی کی ٹینشن لاحق ہو جاتی ہے۔ جب پوتے پوتیاں آجاتے ہیں تو اُن کے مسائل کی ٹینشن لاحق ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ عمر ڈھلنے کے ساتھ انسان کو اکثر و بیشتر مختلف طرح کی بیماریاں گھیر لیتی ہیں جن سے وہ پھر ٹینشن میں مبتلا رہتا ہے۔ ایک دن وہ انسان ساری زندگی ٹینشن میں گزار کر اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ دنیا کے کامیاب انسانوں کی زندگی بھی اسی طرح ٹینشن میں گزر سکتی ہے لیکن ایک قسم کے انسان اس زندگی میں بہت خوش اور پُرسکون رہتے ہیں۔
وہ کس قسم کے انسان ہوتے ہیں؟
یہ اہم سوال ہے اس کا جواب ذیل میں بیان کردہ واقعے میں ہے۔ ایک دفعہ میں ایک نیک اور بزرگ شخصیت سے ملا اور پھر بار بار جانے کا اتفاق ہوا۔ اُن کے معمولات کو قریب سے دیکھا۔ بہت سے لوگ ان کے پاس آتے اور اپنی پریشانیاں اور غم سناتے۔ بعض لوگ تو اتنے پریشان ہوتے کہ رو رو کر اپنے مسئلے بتاتے اور وہ خندہ پیشانی سے اُن کے مسائل سنتے، سمجھاتے اور حل بتاتے۔ ان کے ماتھے پر کبھی ایک شکن بھی نہ آتی۔ وہ ہمیشہ محبت اور اخلاق سے پیش آتے۔ اُن کی اپنی معاشی حالت بھی اتنی اچھی نہ تھی۔ ایک دن میں نے بھی اپنی پریشانیوں کا تذکرہ کیا اور چاہا کہ مجھے بھی ان کی طرح ہمیشہ کیلئے ان سے نجات مل جائے۔
وہ مسکرائے اور مجھے اپنی زندگی کے بارے میں بتانے لگے کہ میرے سات بیٹے ہیں جن میں سے پانچ نابینا ہیں۔ میں نے سب کو سخت محنت سے پالا ہے۔ بیک وقت تین تین ملازمتیں کر کے بچوں کو اچھی تعلیم دلوائی ہے۔ اسی کے ساتھ روز دوسرے لوگوں کیلئے بھی وقت نکالتا ہوں، لیکن مجھے اس بات کی کبھی معمولی سی بھی ٹیشن نہیں ہے کہ میرے بعد میرے ان معذور بچوں کا کیا ہو گا۔ میں یہ بات سن کر حیرت کے سمندر میں ڈوب گیا کہ اگر دوسروں کے گھر میں ایک بھی معذور بچہ پیدا ہو جائے تو وہ ساری زندگی روتے رہتے ہیں۔ انہوں نے میرے سوال کو بھانپ لیا اور فرمانے لگے کہ بیٹا ہم سب اللہ کی مخلوق ہیں اور اسی نے ہمیں پیدا کیا ہے ، اس کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے۔ جس نے پیدا کیا ہے یہ غم، خوشی، پریشانیاں، مسائل سب اسی کی طرف سے ہیں۔
وہ ستر مائوں سے زیادہ محبت بھی کرتا ہے۔ اس نے جس انسان کی جتنی زندگی لکھی ہے وہ پوری کرنے کیلئے پتھر کی سات تہوں میں بھی اپنی اس مخلو ق کو رزق پہنچاتا ہے اور اسباب پیدا کر دیتا ہے۔ جب وہ زندگی ختم کرنے کا فیصلہ کر لے تو تمام اسباب کو بھی بند کر دیتا ہے۔ پھر فرمانے لگے کہ میرے یہ پانچ نابینا بچے ہیں جو خدا کی مخلوق ہیں اور اس نے اپنی اس نابینا مخلوق کی دیکھ بھال کیلئے مجھے ان کا چوکیدار بنایا ہے اور میری یہ ڈیوٹی لگائی ہے کہ میں ان کی دیکھ بھال کروں۔ میرے بعد وہ کسی اور کو ان کا چوکیدار بنا دے گا تو پھر مجھے کس بات کی ٹینشن؟ ہر شخص نے بس اپنی ڈیوٹی پوری کرنی ہوتی ہے اور اس دنیا سے رخصت ہو جانا ہوتا ہے، جو کچھ اس دنیا میں وہ ہمیں دیتا ہے اس پر ہمیں اپنے مالک کا شکر ادا کرنا ہوتا ہے اور جو پریشانیاں اور مشکلات آئیں اس پر صبر کرنا ہے۔
عمیر احمد قادری
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.
0 Comments