آئے دن اخبارات اور نیوز چینلز پر خود کشی کرنے کے واقعات کی خبریں سننےکو ملتی ہیں۔ جب ان کی وجہ معلوم کی جائے تو کوئی غربت سے تنگ آکر خود کشی کرتا ہے، کوئی کسی الزام کی بنا پر شرمندگی کا شکار ہوتا ہے، کسی کو محبت میں ناکامی کا صدمہ ہوتا ہے اور کوئی گھریلو جھگڑوں سے تنگ آکر خود کشی کرتا ہے یا پھر کوئی کسی صدمہ کا شکار ہوتا ہے۔ غرضیکہ کوئی بھی وجہ جو کسی انسان کے اندر اتنی مایوسی پیدا کر دیتی ہے کہ وہ زندگی سے مایوس ہو جاتا ہے اور اب اسے موت ہی میں پناہ نظر آتی ہے۔ بعض اوقات تو بہت معمولی سی بات کسی انسان کے اندر اتنی مایوسی پیدا کر دیتی ہے کہ وہ اس حرام فعل کا ارتکاب کرتا ہے۔
معمولی باتوں پر خودکشی کے واقعات بچوں میں بھی دیکھے گئے ہیں مثلاً فیل ہونے، امتحان میں نمبر کم آنے پر یا والدین کی ڈانٹ مار سے مایوس ہو کر وہ ایسا کرتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ مایوسی کی یہ کیفیت ایک انسان کے اندر کیسے پیدا ہوتی ہے جو اسے اس انتہائی اقدام کی طرف لے جاتی ہے اور اسے اِس سے کیسے بچایا جائے؟ جن گھرانوں میں مذہبی رجحان ہوتا ہے، والدین نماز روزہ کی پابندی کرتے ہیں، بچوں کو بے حیائی کے کاموں سے دور رکھتے ہیں، گھر میں ادب اور تہذیب کا ماحول ہوتا ہے اور والدین بچوں کے دوستوں پر نظر رکھتے ہیں کہ اُن کا بچہ کس طرح کے بچوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے یعنی ایک بچے کو ماں کی گود سے لے کر بڑے ہونے تک جو تربیت، تعلیم اور ماحول ملتا ہے وہ اسے ایک ایسا مضبوط انسان بنا دیتا ہے کہ وہ زندگی میں آئندہ پیش آنے والے سخت حالات کیلئے پہلے سے تیار ہوتا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اس دنیا میں کسی انسان کے ساتھ ایک جیسے حالات نہیں رہتے۔ اگر آج وہ خوش کن حالات میں ہے تو کل اس کی زندگی میں کوئی ایسا سانحہ ہو سکتا ہے جو اس کیلئے غم کا باعث ہو گا۔ اس زندگی کو دوام حاصل نہیں ہے، ہر انسان نے ایک نہ ایک دن مرنا ہے، اور دنیا کی ہر نعمت اور آسائش عارضی ہے، اس کو چھن جانا ہے۔ اس دنیا کی سب سے تلخ حقیقت موت ہے جو ہر انسان کیلئے دکھ اور غم کا باعث بنتی ہے۔ جو لوگ ان حقائق کو دل و دماغ میں بٹھا لیتے ہیں وہ کبھی اس کیفیت کا شکار نہیں ہوتے کہ مایوسی کی اس سٹیج پر پہنچ جائیں کہ خودکشی جیسے اقدام کریں۔ دل و دماغ میں اس حقیقت کو بٹھانے کا دارو مدار تربیت پر ہے جو اسے ماں کی گود اور اپنے ماحول سے ملتی ہے اور جہاں تربیت اور ماحول مختلف ہوتا ہے وہاں انسان بھی مختلف سوچ رکھنے والا پروان چڑھتا ہے۔
دینی ماحول میں تربیت پانے والی ماں اپنے بچے کے ساتھ اس انداز سے ڈیل کرتی ہے کہ اگر اسے اپنے بچے کو کسی بات سے روکنا ہو تو وہ اسے اس بات سے ڈراتی ہے کہ اللہ میاں ناراض ہو جائیں گے یہ کام نہیں کرتے، جبکہ ایک عام ماحول میں تربیت پانے والی ماں نے جب اپنے بچے کو کسی بات سے روکنا ہوتا ہے تو وہ اکثر اسے کہتی ہے کہ جن آجائے گا، بھوت آجائے گا۔ اسی طرح ایک تربیت یافتہ ماں اپنے بچے کو اچھے اور سبق آموز واقعات سناتی ہے جس سے اس کے اندر خوف خدا، جنت کا شوق اور جہنم کا خوف پیدا ہوتا ہے۔ اس تربیت سے بچے کے لا شعور میں خدا کا جو خوف پیدا ہو جاتا ہے وہ اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ اسے ساری زندگی بھٹکنے سے بچاتا ہے اور کسی ایسے انتہائی اقدام کی طرف بڑھنے نہیں دیتا جو دین میں ممنوع ہو۔
یہ ممکن ہے کہ جوان ہونے کے بعد وہ اردگرد کے ماحول کے رنگ میں رچ بس جائے لیکن بچپن کا ماحول اور تربیت اس کے اندر ایک روحانی قوت پیدا کر دیتی ہے جو اسے زندگی بھر کام دیتی ہے۔ وہ کسی بھی طرح کے حالات میں اپنے اندر کے تعلق بااللہ کی وجہ سے اس مایوسی میں مبتلا نہیں ہوتا کہ اس قسم کے انتہائی اقدام کی طرف بڑھے۔ اسی لیے والدین کو چاہیے کہ وہ پہلے اپنی تربیت کی فکر کریں، اپنی اصلاح کریں تاکہ وہ اپنے بچوں کی بہترین تربیت کر سکیں اور اُنہیں ایک اچھا انسان بنا سکیں جو زندگی میں کبھی مایوس نہ ہو۔
عمیر احمد قادری
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.
0 Comments