بوریت ایک کیفیت ہے جو ہر کسی پر طاری ہو سکتی ہے، یہ اس حالت کا نام ہے جس میں فرد اطمینان بخش سرگرمی سرانجام دینے سے قاصر رہتا ہے، اس پر َ منفی خیالات طاری ہو سکتے ہیں۔ ماہرین نے بوریت کی پانچ اقسام گنوائی ہیں جو آپس میں گڈ مڈ ہیں۔ ان کے بقول ''کسی کی جانب سے دھتکارے جانے کے بعد بھی فرد بور ہو سکتا ہے، کسی مقصد کی تکمیل یا تلاش میں ناکامی بھی بوریت کا سبب بنتی ہے، دوسروں کا رویہ بھی بور کر سکتا ہے‘‘۔ بوریت کا تعلق نفسیات اور عادات سے بھی ہے، اس لئے کچھ لوگ زیادہ اور کچھ کم بور ہوتے ہیں۔ یہ کیسے پتہ چلایا جائے کہ کون کتنا بور ہے؟ یا اے زیادہ بور ہے یا بی؟ 1986ء میں سائنسدانوں نے بوریت کی شدت جاننے کے لئے '' بوریت کی شدت کا پیمانہ‘‘ (Boredom Proneness Scale) جاری کیا ۔ 2008ء میں بوریت کی شدت جاننے کا نیا اور جامع پیمانہ جاری کیا گیا۔
بوریت کے نقصانات
بوریت کا شکار انسان کو ڈرائیونگ نہیں کرنا چاہئے، ایسے میں دماغ میں کچھڑی پکی ہوتی ہے، حادثے کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔ بور افراد برائی کی جانب جلدی مائل ہو سکتے ہیں جیسا کہ جوا وغیرہ۔ ماہرین نفسیات کی ایک ٹیم کو دوران سروے معلوم ہوا کہ تنہائی کا شکار بور افراد میں سے 66 فیصد نے خود کو بجلی کا جھٹکا لگا لیا 25 فیصد بور عورتوں نے بھی یہی حرکت کی۔ ایک اور تجربے سے بھی ان نتا ئج کی تصدیق ہوئی۔ جان لیجئے، بور انسان کو توجہ درکار ہے اسے تنہا مت چھوڑیئے ۔ بور لوگوں کو باتوں میں لگانے کی کوشش کرنا چاہئے۔
بوریت کے فائدے
ماہرین نے جوں جوں بوریت کے پس پردہ راز جاننا شروع کئے تو اس کے فوائد بھی سامنے آنے لگے ۔ یہ راز کھلا کہ بوریت اچھی چیز ہے ، یہ انسان کو آگے بڑھنے کا راستہ دکھا سکتی ہے ،ایک تحرک ہے مگر کیسے؟ ایک سائنس دان کا کہنا ہے کہ ''بور آدمی دنیا میں خود کو بے معنی اور بے کار آدمی سمجھنے لگتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے جو کام کئے ہیں وہ درست نہیں ، وہ اب کسی کام کے نہیں رہے، لیکن اگر اسی بات کو وہ اپنی طاقت بنا لیں اور یہ سوچنا شروع کر دیں کہ ''میں کسی کام کا کیوں نہیں ہوں؟‘‘ تو وہ زیادہ توانائی کے ساتھ کام کر سکتے ہیں۔ مغربی ماہر نفسیات پروفیسر وجنند وون ٹلبرگ (Wijnand van Tilburg) متفق ہیں کہ '' ماضی میں بوریت کے حوالے سے کافی کچھ منفی کہا جا چکا ہے اسے اب یک دم بدلا نہیں جا سکتا لیکن تخلیقی کام اور بوریت کے مابین گم شدہ تعلق کی تلاش وقت کا تقاضاء ہے‘‘۔
اپریل 2017ء میں پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں''عالمی انٹر ڈسلپنری بوریت کانفرنس‘‘ منعقد ہوئی ۔ یہ بوریت پر تحقیقی کام کو سامنے لانے والی پانچویں کانفرنس تھی۔ بڑھتی ہوئی اہمیت کے پیش نظر مئی میں ''لندن بورنگ کانفرنس‘‘ بھی منعقد ہوئی ۔ ماہرین نے انسان کو بور کر دینے والی آوازوں اور ذہنی کیفیات کا بھی جائزہ لیا ۔ ایک نکتے پر مقررین متفق تھے۔ وہ یہ کہ بوریت دراصل ایک طاقت ہے، انرجی ہے، اسے طاقت بنا لیا جائے تو بوریت ترقی کا زینہ بن سکتی ہے۔ ایک تجربے کے دوران سائنس دانوں نے بور اور غیر بور افراد میں کچھ مشقیں تقسیم کیں۔ پھر ان سے کہا گیا کہ وہ کوئی چیلنجنگ کام کریں، کوئی پیچیدہ معاملہ حل کریں۔ انہیں معلوم ہوا کہ بور افراد میں تخلیقی صلاحیت دوسرے گروپ کی بہ نسبت زیادہ تھیں۔ بوریت میں انسان خوابوں کی دنیا میں بھی جا سکتا ہے اور انہی خوابوں کو وہ تخلیقی صورت میں ڈھال کر، زیادہ طاقت کے ساتھ آگے بڑھ سکتا ہے۔ ''جرنل آف کری ایٹیو بیہورل ‘‘ میں شائع شدہ تحقیق ''Boredom as an antagonist of Creativity‘‘ میں بھی تفصیلی بحث کی گئی ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ''بور شخص چاہے تو خود بھی اپنی بوریت کو طاقت بنا سکتا ہے اور اگر کوئی اس کا ساتھ دے تو بھی وہ بوریت سے انرجی حاصل کر سکتا ہے‘‘۔
ڈاکٹر سعدیہ اقبال
بشکریہ دنیا نیوز
Visit Dar-us-Salam PublicationsFor Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.
0 Comments